جہان بھر میں نمایاں ہے اِک نظارۂ خیر

وہ عالمین کی رحمت کا استعارۂ خیر

بکھر ہی جانا تھا وحشت کے شر سمندر میں

نظر میں رہتا ہے میرے مگر کنارۂ خیر

مثالِ گنبدِ خضریٰ نہیں بجز اِس کے

زمینِ نور پہ رکھا ہے شاہ پارۂ خیر

قصورِ قیصر و کسریٰ دہل گئے جس سے

عرب کی وادی میں گونجا وہ ایک نعرۂ خیر

نئے معانی میں ڈھلتے گئے وہ عِلم و قلَم

حرا سے لے کے وہ آیا عجیب پارۂ خیر

زمیں پہ آیا تو جیسے ہوئی سحر بیدار

فلک پہ صدیوں سے روشن تھا اِک ستارۂ خیر

تمھاری نعت کے مابعد کچھ نہیں سوجھا

کچھ ایسے کھینچا ہے جذبوں نے گوشوارۂ خیر

بہ فیضِ نعتِ نبی سرخرو ہوں مَیں مقصودؔ

مِلا ہوا ہے ازل سے مجھے اشارۂ خیر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]