جہاں نوشابۂ لطف و کرم رکھا ہوا ہے

اسی در پر سرِ تسلیم خم رکھا ہوا ہے

مرا ہر عیب دنیا کی نگاہوں سے چھپا کر

شہِ ابرار نے میرا بھرم رکھا ہوا ہے

مجھے تھکنے نہیں دیتا درِ سرکارِ بطحا

اسی در کی کشش نے تازہ دم رکھا ہوا ہے

یقیناً اشک شوئی آپ فرمائیں گے میری

اسی امید پر آنکھوں کو نم رکھا ہوا ہے

تصور میں دیارِ نور ہو ہر وقت میرے

تعلق اس لئے دنیا سے کم رکھا ہوا ہے

کہاں ممکن ہے ایسا دوسرا آقا، کہ جس نے

غلاموں کو بصد ناز و نعم رکھا ہوا ہے

عطا ہوگا کبھی اک نعت کا مقبول مصرع

درِ امید پر کاغذ قلم رکھا ہوا ہے

جناں کا بوستاں اللہ نے ہر ایک ماں کے

طفیلِ آمنہ زیرِ قدم رکھا ہوا ہے

مرے آنسو معطر کیوں نہ ہوں اشفاقؔ، میں نے

حسین ابنِ علی کا دل میں غم رکھا ہوا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]