جہاں پر آبِ رواں سے چٹان ملتی ہے

وہیں سے موج کو اکثر اٹھان ملتی ہے

جہاں بھی دستِ توکل نے کچھ نہیں چھوڑا

وہیں سے دولتِ کون و مکان ملتی ہے

جو قفلِ ذات کرے ضربِ عشق سے دو نیم

اُسے کلیدِ زمان و مکان ملتی ہے

کریں گمان تو جاتی ہے دولتِ ایمان

رہے یقین تو پھر بے گمان ملتی ہے

اُسی کا سر سرِ نیزہ پہ رکھا جاتا ہے

مرے قبیلے میں جس کو کمان ملتی ہے

فشارِ درد سے ہوتا ہے میرا خامہ رواں

دہانِ زخم کو گویا زبان ملتی ہے

زمانہ اب وہ کہاں زورِ بال و پر کا ظہیرؔ

ہوا سے دوستی ہو تو اڑان ملتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]