جیسے کسی کو خواب میں میں ڈھونڈھتا رہا

دلدل میں دھنس گیا تھا مگر بھاگتا رہا

بے چین رات کروٹیں لیتی تھیں بار بار

لگتا ہے میرے ساتھ خدا جاگتا رہا

اپنی اذاں تو کوئی مؤذن نہ سن سکا

کانوں پہ ہاتھ رکھے ہوئے بولتا رہا

ساعت دعا کی آئی تو حسب نصیب میں

خالی ہتھیلیوں کو عبث گھورتا رہا

اس کی نظر کے سنگ سے میں آئنہ مثال

ٹوٹا تو ٹوٹ کر بھی اسے دیکھتا رہا

انساں کسی بھی دور میں مشرک نہ تھا کبھی

پتھر کے نام پر بھی تجھے پوجتا رہا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]