حرفِ رسوا ہوں کہ تشہیر ہوں ، جانے کیا ہوں
تیری تذلیل ہوں ، توقیر ہوں ، جانے کیا ہوں
تو ہے موجود کہ امکان ہے جانے کیا ہے
میں حقیقت ہوں کہ تصویر ہوں ، جانے کیا ہوں
یہ تخیل ہے کہ منظر ہے نہ جانے کیا ہے
میں کوئی خواب ہوں تعبیر ہوں ، جانے کیا ہوں
حرف آفاق سے اترے ہیں صحیفہ ہو کر
میں مگر خاک پہ تحریر ہوں ، جانے کیا ہوں
ہاتھ جوڑوں تو کبھی ناز دکھاؤں تم کو
میں ہوں احسان کہ تقصیر ہوں ، جانے کیا ہوں
یوں بھی ہوتا ہے کبھی خود سے گزر جاتا ہوں
راستہ ہوں کہ میں رہگیر ہوں ، جانے کیا ہوں
ہر نئے درد کی ملتی ہے کڑی کڑیوں سے
نارسائی کی میں زنجیر ہوں ، جانے کیا ہوں
میری باچھیں کہ لگاموں سے چِری جاتی ہیں
میں جو کہنے کو عناں گیر ہوں ، جانے کیا ہوں
میں نہیں لمحہِ موجود ، یہ طے ہے ناصر
اب میں عجلت ہوں کہ تاخیر ہوں ، جانے کیا ہوں