حرفِ مدحت جو مری عرضِ ہنر میں چمکا

میرا ہر حرف زمانے کی نظر میں چمکا

دے گیا کتنے شرف ایک سیہ پتھر کو

ایک بوسہ جو ترے لب سے حجر میں چمکا

وجہِ شادابیٔ عالم ہے یہ رنگِ اخضر

ہر زمانے میں ہر اک برگِ شجر میں چمکا

واسطہ ان کا دیا صلِ علٰی پڑھتے ہوئے

میرا ہر حرفِ دعا بابِ اثر میں چمکا

کیسے ہو شہرِ مدینہ کی بلندی کا بیاں

جس کے ذرے کا بدن روئے قمر میں چمکا

خواب خواہش کے حسیں طاق پہ رکھا ہی رہا

لمعۂ یاد مرے شام و سحر میں چمکا

ٹوٹتے حوصلے اشفاق جواں ہونے لگے

گنبدِ سبز مری راہ گزر میں چمکا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]