حرف و بیانِ شوق سے یکسر فزوں ہے نعت

اپنے خیالِ خام کو کیسے کہوں ہے نعت

لفظوں سے اور لہجوں سے ممکن نہیں نیاز

جاں سے فریب ، دل کے کہیں اندروں ہے نعت

آیاتِ نُور سے ہے ضیا یاب سطر سطر

اے جذب زاد حرفِ جنوں ! دیکھ ، یوں ہے نعت

اِک بے مثیل کیف ہو جیسے میانِ شوق

حیرت گہِ جنوں ہے ، کبھی خود جنوں ہے نعت

واللہ ، ایک موجِ تسلی ہے اُس کی رَو

واللہ ، ایک جملۂ جملہ سکوں ہے نعت

اِک بے شمار کیفِ مسلسل ہے سر بسر

اِک بے کنار وسعتِ جذبِ دروں ہے نعت

اِک نُور بار شام و سحر سے ہے مسنتیر

لا ریب عکسِ عرصۂ خیرِ قُروں ہے نعت

امکان میں نہیں ہے مگر چار سُو ہے نقش

وجدان سے فزوں کوئی قوسِ ظنوں ہے نعت

اُس کے بیانِ ناز میں ہیں حیرتیں تمام

یعنی نمودِ نقش گہِ کاف ، نوں ہے نعت

مقصودؔ ، میرے حرفِ تمنا کی خیر ہو

احساس میں دروں تو سخن سے بروں ہے نعت

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]