حروفِ عجز میں لپٹے ہوئے سلام میں آ

اے میری خواہشِ باطن مرے کلام میں آ

اُداسی دل کے دریچوں سے جھانکتی ہے تجھے

بس ایک لمحے کو تو حیطۂ خرام میں آ

تو میرے قریۂ جاں میں اُتار صبحِ نوید

تو میرے عجز گھروندے کی ڈھلتی شام میں آ

ہزار عرض و جتن کی ہے ایک ہی تدبیر

تو آ، زمانوں کے والی، مرے خیام میں آ

نہیں مجال، پہ حالت بہت ہے آزردہ

اے حسنِ تام، مرے شوقِ نا تمام میں آ

مَیں کعبہ دیکھنے لگتا ہوں تیری دید کے ساتھ

مدینے والے تو پھِر مسجدِ حرام میں آ

ترے حضور یہ عرضی گزار ہے مقصودؔ

وہ تیرا خاص نہیں ہے، تو اپنے عام میں آ

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]