حقیقت جو پوچھو تو یہ زندگانی

فریبِ مسلسل کی لمبی کہانی

ابھی اور ہونے دے یہ خون پانی

ابھی سے ہے رکھی کہاں کامرانی

مجھے تو وہی چاہئے غیر فانی

فقیری میں ہے جو شکوہِ کیانی

غمِ عشق اندر تو شعلہ بہ دل ہے

مگر آنکھ تک آ کے ہے پانی پانی

بیانِ غلط کا یقیں آ گیا ہے

اسی کو تو کہتے ہیں جادو بیانی

جو ہو سوز پہلے تبھی اشک آئیں

لگے آگ پہلے تو پھر آئے پانی

نظرؔ اٹھ کے دھو داغِ تر دامنی کو

اسی سے کہ ہے چشمۂ دل کا پانی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]