حق مدح کا ان کی نہ ادا ہو گا بشر سے

جب تک نہ لکھے کوئی بشر خونِ جگر سے

بنتِ شہِ لولاک کے اس لختِ جگر سے

ہو کیوں نہ محبت مجھے حیدرؓ کے پسر سے

صورت ہے ضیا تاب سوا روئے قمر سے

سیرت کی چمک دیکھ ذرا دل کی نظر سے

وہ عارضِ تاباں کہ سدا نور ہی برسے

وہ زلفِ سیہ رنگ گھٹا بھی جسے ترسے

ہر بندۂ مومن کو عقیدت ترے گھر سے

ایمان کی دولت کہ ملی ہے اسی در سے

گزری تھی کبھی موجۂ خوں آپ کے سر سے

دل آج بھی ہوتا ہے لہو غم کے اثر سے

پوچھو یہ گروہِ مَلَک و جن و بشر سے

محفوظ نہ تھا دامنِ دیں پنجۂ شر سے

دیکھی نہ گئی آپ سے بے چارگی دیں

شمشیر و سناں باندھ کے نکلے وہ کمر سے

اف کود پڑے معرکۂ عشق میں تنہا

پائی تھی وراثت میں شجاعت جو پدر سے

اے کشتۂ تیغ ستمِ عشق مبارک

پائندہ ہے اسلام تیرے خونِ جگر سے

نقشِ کفِ پا کی تیرے اللہ رے عظمت

پیشانی عظمت پہ ہیں تابندہ گہر سے

جانبازی شبیرؓ جدا سب سے جدا ہے

تم دیکھ لو تاریخ میں خود اپنی نظرؔ سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]