حلیفِ ظلمتِ شب تار ہم نہیں ہوں گے

سحر سے بر سرِ پیکار ہم نہیں ہوں گے

یہ خوابِ غفلت بیخود ہمیں گوارا ہے

فروغِ جبر میں بیدار ہم نہیں ہوں گے

ہمیں عزیز ہے حرمت جہادِ منزل کی

شریکِ کاوشِ بیزار ہم نہیں ہوں گے

کسی حریفِ ستمگر کی پیشوائی میں

شریکِ مجمع اغیار ہم نہیں ہوں گے

سجاؤ سر پہ کسی کے بھی تاجِ سلطانی

نقیبِ شوکتِ دربار ہم نہیں ہوں گے

جہاں میں عظمتِ کردار کے ہیں قائل ہم

قتیلِ گرمیء گفتار ہم نہیں ہوں گے

بکی ہے گرچہ حمایت ہماری ہر عنوان

رہینِ جبۂ و دستار ہم نہیں ہوں گے

اگر نہ بن سکے مظلوم کی سِپر نہ سہی

ستم کے ہاتھ میں تلوار ہم نہیں ہوں گے

اگر ہے قیمتِ گویائی درد کی تشہیر

تو پھر سے تشنۂ اظہار ہم نہیں ہوں گے

جمالِ خرقۂ درویشی ہے نظر میں ظہیرؔ

اسیر طرّۂ خمدار ہم نہیں ہوں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]