خود فریبی کے نئے کچھ تو بہانے ڈھونڈیں

اُس کی الفت کے علاوہ بھی ٹھکانے ڈھونڈیں

گذری صدیوں کو گذارے چلے جائیں کب تک

چھوڑ کر ماضی چلو اور زمانے ڈھونڈیں

ہم کسی اور ہی اندازِ محبت کے ہیں لوگ

تازہ رشتوں میں بھی اقرار پرانے ڈھونڈیں

دل پہ مت لینا کہ لوگوں کی تو باتیں یوں ہیں

جیسے اُڑتے ہوئے کچھ تیر نشانے ڈھونڈیں

ڈار سے بچھڑے پرندوں کو نہیں معلوم اب

رزق ڈھونڈیں یا بسیرے کے ٹھکانے ڈھونڈیں

پھر کسی شام چلو یاد کے جنگل میں ظہیرؔ

ہم نے جو دفن کئے تھے وہ خزانے ڈھونڈیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]