خوشامد کے یہ آوازے سماعت چھین لیتے ہیں

نشے طاقت کے لوگوں سے بصارت چھین لیتے ہیں

اپاہج اور بھی کر دیں گی یہ بیساکھیاں تجھ کو

سہارے آدمی سے استقامت چھین لیتے ہیں

غموں کی دھوپ میں چہروں پہ رونق کس طرح آئے

یہ موسم درد کے خوشیوں کی دولت چھین لیتے ہیں

میں سمجھوتا بھی اس ماحول سے کیسے کروں کوئی

جہاں اک دوسرے سے لوگ عزت چھین لیتے ہیں

مرا پیغام دے دیجے یہ جا کر میرے لشکر کو

ہوس کے لشکری قوموں سے وحدت چھین لیتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]