خیالِ خام لیے، حرفِ ناتمام لیے

گدائے شوق ہے حاضر فقط سلام لیے

ہوائے تیز سے تھرا رہے تھے خواب شجر

کہ دستِ ساعتِ تسکیں نے بڑھ کے تھام لیے

خدا کا شکر کہ وردِ زباں رہے ترے نام

سوال جیسے بھی تھے ہم نے تیرے نام لیے

کرم ہوا کہ خطاؤں کو تیری رہ سوجھی

کہاں کہاں بھلا پھرتا انہیں غلام لیے

ابھی سے شہرِ عطا نے دریچے کھول دیے

ابھی تھے حرف نے مشکل سے چار گام لیے

تو اپنی دید کی صبحِ کرم بنا اس کو

کھڑا ہوں اپنی ہتھیلی پہ ایک شام لیے

وجود، شوق کے منظر میں ڈھل گیا مقصودؔ

ابھی تھے خواب نے دستِ عطا سے جام لیے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]