خیالِ شہرِ کرم سے یہ آنکھ بھر آئے

جو عکسِ گنبدِ اخضر کہیں نظر آئے

مچل کے ہجر کے بندے کا دل کرے فریاد

کرم ہو کاسہ بہ کف آپ کے نگر آئے

بس ایک میم ہی لکھا تھا بہرِ نعتِ نبی

حروف جیسے ورق در ورق نکھر آئے

دعاے خیر تھی ڈھارس جو عشق کے بندے

پُلِ صراط سے اک جست میں گزر آئے

بہ فیضِ محفلِ میلاد میرے آنگن میں

فلک سے جیسے ہر اک ،کہکشاں اُتر آئے

وہ دیکھ لیں جو کبھی ایک بار میری طرف

بغیر عرض مری ہر مراد بر آئے

میں کب سے دیکھ رہا ہوں رہِ شہا یا رب

کبھی تو اذن ملے کوئی نامہ بر آئے

یہ لازمی ہے درِ خیر پر ہر اک زائر

حضورِ شاہِ مدینہ بہ چشمِ تر آئے

درود اُن کا لبوں پر سجائے بیٹھا ہوں

نہ جانے کب کوئی مصرع ثنا کا در آئے

جبینِ عجز کیے خم ہے آرزو منظر

دیارِ شاہِ مدینہ میں سر بسر آئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]