خیال و خواب سے آگے گماں سے بالاتر

یہ خآمشی ہے مری جاں بیاں سے بالاتر

تمہاری کھوج میں پرواز کر کے آ پہنچا

میں لامکان سے آگے، مکاں سے بالاتر

عجیب ضد ہے کہ اک بار جا کے دیکھ سکوں

جہاں نظر نہیں جاتی وہاں سے بالاتر

میں دھول چاٹ رہا ہوں تمہاری خواہش پر

مری تو خاک بھی تھی آسماں سے بالاتر

موازنہ کبھی حسرت کا غم سے کر دیکھوں

کہاں سے پست رہا ہے کہاں سے بالاتر

میں دل بنا کے تری ٹھوکروں میں رکھتا ہوں

یہ کاروبار ہے سود و زیاں سے بالاتر

مٹا ہے جو وہ کوئی عام سا وجود نہ تھا

مرے نشان کو ڈھونڈو نشاں سے بالاتر

نہ ہو سکے تو مرے پر ہی نوچ لے ناصر

جو ہو سکے تو اڑا کہکشاں سے بالاتر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]