خیمۂ دل میں کھِلے، قریۂ جاں میں چمکے

آپ کا نام نہاں اور عیاں میں چمکے

مَیں اُسے اپنے ہی اک خواب گھروندے میں رکھوں

یہ الگ بات کہ وہ پورے جہاں میں چمکے

سب اُسی نور سے لیتے ہیں کرن کی خیرات

وہ بشر زاد تو ہر نور نشاں میں چمکے

ُپورے احساس میں جَل اُٹھیں عقیدت کے چراغ

کاش وہ میرے کسی شعر و بیاں میں چمکے

دل دریچے سے اُسے جھانکنے لگ جائے یقیں

وہ ذرا سا بھی اگر صحنِ گماں میں چمکے

اُس کی مرضی پہ ہے موقوف جہانِ طلعت

اُس کی مرضی ہے وہ جس دور، زماں میں چمکے

بوئے نایاب مری زیست میں گُھل مِل جائے

وہ گلابوں کا امیں میری خزاں میں چمکے

کیا عجب نام ہے مقصودؔ وہ نامِ احمد

دل میں وہ رنگ بھرے اور زباں میں چمکے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]