دار و مدارِ حاضری تیری رضا سے ہے

حرف و بیانِ شوق بھی تیری عطا سے ہے

آنکھوں سے چُومتا ہُوں ترا گنبدِ جمیل

اِس کا جمال و نور ترے نقشِ پا سے ہے

صدیوں کے فاصلے میں بھی ہے یوں ہی سر بلند

نسبت تمھاری نعت کی تو خودخُدا سے ہے

شُکرِ خُدا کہ ہُوں رہِ حسّاں پہ گامزن

آغازِ نطق میرا بھی صلّ علیٰ سے ہے

کاسہ بکف ہوں ان کے درِ خیر پر کھڑا

اک واسطہ مرا بھی شہِ دوسرا سے ہے

روشن ہے ان کی نعت سے آئینۂ خیال

آنکھوں میں روشنی رخِ خیر الوریٰ سے ہے

منظرؔ ! میں ہوں علی کا کوئی کیا دبائے گا

میرا تمام سلسلہ شیرِ خُدا سے ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]