دردِ الفت کی جاودانی تھی

حوصلے کی عجب کہانی تھی

میں کہیں سے نیا نہیں لگتا

میری تصویر بھی پرانی تھی

اب اُسی کی تلاش میں گم ہوں

ایک لڑکی مری دیوانی تھی

یہ جو مسکان کھو گئی مجھ سے

ضبط کی آخری نشانی تھی

لوٹ آیا تو اس سے کیا کہتے

جس کے چہرے پہ بدگمانی تھی

اب تو جذبوں پہ ضعف طاری ہے

پہلے کب زور میں جوانی تھی

وہ کبھی مجھ سے مل نہیں پایا

یہ مرے بخت کی گرانی تھی

اُس کا چرچہ ہے شہر والوں میں

میں نے اک بات جو چھپانی تھی

ہجر میں اور کچھ نہ تھا یارو

میری آنکھوں کی رائیگانی تھی

ایک مدت کے بعد یاد آئی

زینؔ یاری بہت پرانی تھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]