دعاؤں اور عطاؤں میں رابطہ تو ہے

خدا و بندے کے مابین واسطہ تو ہے

خیال و فکر میں حرفِ نمود تیرا وجود

جہانِ فہم و فراست کا ضابطہ تو ہے

دراز شب میں نویدِ سحر تری مِدحت

خزاں رُتوں میں گلابوں کا تذکرہ تو ہے

عرُوسِ عصر کے چہرے پہ تیرے اسم کا نور

نگارِ وقت کی زُلفوں کا سلسلہ تو ہے

بِکھر چکے تھے سبھی دشتِ دہر میں نغمے

جو تھا، جو ہے، جو رہے گا وہ زمزمہ تو ہے

خیالِ رفتہ کی صورت تھی یہ حیات و ممات

کِتابِ زیست کا تابندہ واقعہ تو ہے

جہانِ فکر میں مقصودؔ کے نہ تھا کچھ بھی

اُتر چلا ہے جو نعتوں کا قافلہ تو ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]