دلیلِ منعِ مثلیّت کلامِ ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘

آقا کریم کے ارشادِ گرامی ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘
( کون ہے تم میں میرے جیسا ) کو ردیف میں لانے کی سعادت

دلیلِ منعِ مثلیّت کلامِ ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘

خطِ تنسیخِ مُطلَق ہے مقامِ ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘

عبث ہے التزامِ مبحثِ نور و بشر یکسر

حصارِ عجز میں ہیں سب بہ دامِ ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘

سخن کا چاند چمکے بھی تو چمکے کس تناظر میں

ورائے مطلعِ طلعت ہے بامِ ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘

ترفّع جن کا بے تمثیل ، وسعت بے تقابل ہے

کھُلے ہیں ارضِ حیرت پر خیامِ ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘

وہ روئے والضّحیٰ و گیسوئے والیل کی سج دھج

وہ صبحِ اَیُّکُمْ مِثْلِی، وہ شامِ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘

یہاں تعمیم میں بھی عِلَّتِ تخصیص ہے لازم

تکاثر میں تفرّد ہے پیامِ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘

نہیں امکان میں ہرگز بیانِ مدحِ قُرآنی

ثنا ہم لکھتے ہیں لیکن، بنامِ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘

مجالِ مثل سر افگندہ ہے دہلیزِ حیرت پر

ہویدا ہے بہَر سُو نقشِ تامِ ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘

جہاں وہمِ تساوی کی بھی گنجائش نہ ہو مقصودؔ

کہاں ممکن کہ ہوں پیدا سہامِ’’ اَیُّکُمْ مِثْلِی ‘‘

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]