دل جیسی کوئی صورت دِلّی میں نظر آئی

آنکھوں کے دریچوں سے دھڑکن میں اُتر آئی

دل جیسی کوئی صورت دِلّی میں نظر آئی

پہلے تو اُداسی سے دھندلائی رہیں آنکھیں

پھر آئے نظر غالب اور شام نکھر آئی

رات آئی تو کوچوں میں تھیں میر کی آوازیں

پھر آنکھ کہاں جھپکی ، پھر نیند کدھر آئی

اُس شہر میں یوں کھویا ، ہنستے ہوئے میں رویا

یتی ہوئی صدیوں سے اپنوں کی خبر آئی

پہنچا تو تھا پورا میں ، لوٹا ہوں ادھورا میں

سو جسم تو لے آیا پر روح نہ گھر آئی

​دلی کے نہ تھے کوچے، اوراقِ مصور تھے

"جو شکل نظر آئی ، تصویر نظر آئی "​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]