دل کہ اک جزیرہ ہے

دل کہ اک جزیرہ ہے
گہرے سرد پانی میں
منجمد سفینہ ہے
درد کی روانی میں
برف سارا عالم ہے
سرمئی سے موسم میں
منجمد سے روز و شب
کُہر کے نقابوں سے
چہرہ تکتے رہتے ہیں
اجنبی زبانوں میں
اَن کہی سی کہتے ہیں
اک طرف شمال کی
ہفت رنگ روشنی
آرزو کے پردے پر
رنگ رنگ خوابوں کا
جال بُنتی رہتی ہے
آس لکھتی رہتی ہے
دل میں جھانک کر میرے
چپکے چپکے کہتی ہے
رات پھر بھی رات ہے
رات کی شکایت تو
ناروا سی بات ہے
گرچہ ناروا ئی میں
ناروے کی رات ہے
وقت ہی تو ہے آخر
وقت بیت جاتا ہے
درد جتنا ظالم ہو
صبر جیت جاتا ہے
بے لحاظ ہے موسم
بے زوال تو نہیں
دوریوں کے ماہ و سال
نوری سال تو نہیں
گردشِ زماں نہیں
گردشِ زمین ہے
صبح کے نکلنے کا
تم کو تو یقین ہے
کچھ ہی روز باقی ہیں
برف کے پگھلنے میں
تیرگی کے پردے سے
نور کے نکلنے میں
رات کا تماشا اب
کچھ ہی دیر ہونا ہے
اس کے بعد ہر طرف
روشنی کا سونا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]