دیارِ طیبہ کے ہم دیکھتے رہے

بے اختیار آنکھوں میں نم دیکھتے رہے

پر نور ساعتیں تھیں وہ پر کیف روز و شب

سردارِ دو جہاں کا کرم دیکھتے رہے

ان کی لحد کو دیکھ نہ پایا اگرچہ میں

لیکن مجھے شفیعِ امم دیکھتے رہے

جنت کا در بقیع کی صورت کھلا رہا

رنگوں میں ڈھلتی شام الم دیکھتے رہے

نظریں طوافِ روضہ میں مصروف ہی رہیں

حیرانی میں خیال و قلم دیکھتے رہے

سنتے رہے اذانیں نبی کے دیار کی

دیوانہ وار صحنِ حرم دیکھتے رہے

وہ بارہ دن مدینے کے پل میں گزر گئے

آیا نہ پاس کوئی بھی غم دیکھتے رہے

عشاق کا ہجوم تھا باب السلام پر

مظہرؔ جبینِ عصر کو خم دیکھتے رہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]