دیتی نہیں ہیں جلوتیں راحت کبھی کبھی

دیتی ہے جو سکون یہ خلوت کبھی کبھی

کب تک رہِ وصال میں بیٹھا رہے گا ، ہجر !

’’ہوتی ہے تیرے نام سے وحشت کبھی کبھی‘‘

جائیں گے ہم فقیر بھی بطحا میں ایک دن

ملتی ہے اس خیال سے فرحت کبھی کبھی

بن کے گدا جو آپ کے در پر ہیں جاگزیں

پاتے ہیں وہ فقیر ہی عزّت کبھی کبھی

کثرت سے اُن کی ذات پہ پڑھتے رہو درود

ملتی ہے یُوں بھی دید کی دولت کبھی کبھی

دوزخ سے بچ گیا ہے یہودی بھی وہ شہا!

کرتا رہا جو آپ کی خدمت کبھی کبھی

گاہے بگاہے ملتے ہیں بطحا کے زائرین

ملتی ہے میرے دل کو یُوں راحت کبھی کبھی

ابنِ بتُول سبطِ نبی حضرتِ حسین

کرتے ہیں جو سِناں پہ تلاوت کبھی کبھی

ایماں کے دعوے دار ہیں جو بے ادب بھی ہیں

ہوتی ہے اُن کو دیکھ کے حیرت کبھی کبھی

میرے کریم کا درِ عالی ہے وہ جلیل

بدلی ہے کافروں کی بھی حالت کبھی کبھی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]