دیدۂ شوق ہمیشہ سے ہی نم رکھا ہے

یادِ طیبہ میں دعاؤں کو بہم رکھا ہے

وہ جگہ رشک گہِ خلد و سماوات ہوئی

جس جگہ آپ نے اک بار قدم رکھا ہے

مضطرب قلب عجب لطف سے سرشار ہوا

یوں لگا دل پہ مرے دستِ کرم رکھا ہے

سبھی الفاظ ہوئے زینتِ قرطاسِ دعا

جب سے مدحت میں تری وقف قلم رکھا ہے

فاصلہ حجرۂ نوری سے جو ہے منبر تک

تا ابد رب نے اسے رشکِ ارم رکھا ہے

آج ہو جائے گی طیبہ کی زیارت مجھ کو

بخت میں آج مرے اذنِ حرم رکھا ہے

لمحہ لمحہ ہو مری زیست کا مصروفِ ثنا

اُس دعا کو سرِ فہرست رقم رکھا ہے

بہ خدا فکر یہ اجداد سے پائی میں نے

خامہ و نطق بس اک میم میں ضم رکھا ہے

میں کہ بے نام سا بے دام سا منظر ہوں مگر

مدحتِ شاہ نے بس میرا بھرم رکھا ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]