دیویوں کو مندروں میں جاپ کی خاطر ملے
لوگ سمجھے داس اُن سے پاپ کی خاطر ملے
عاجزی سیکھی کہ تربیت کو سب اچھا کہیں
ہم تو جھک کے سب سے ہی ماں باپ کی خاطر ملے
زندگی ہم سے ملی یوں جیسے داروغہ کوئی
مجرموں سے گردنوں کے ناپ کی خاطر ملے
ہم نے گھر آئے ہوئے مہمان کا رکھا خیال
تیرے بھیجے درد کی چپ چاپ کِی ، خاطر ، ملے
اب اسے بے راہ روی بولیں کہ کومل بے بسی
آپ کے ہم شکل سے ہم آپ کی خاطر ملے