ذکرِصلّ علیٰ ہے زباں پر ‘ کیسی خوشبو فضا میں رچی ہے

ذکرِ صلّ علیٰ ہے زباں پر ‘ کیسی خوشبو فضا میں رچی ہے

سارا ماحول نکھرا ہوا ہے اور ہواؤں میں بھی تازگی ہے

اتنا میٹھا ہے اسمِ محمد اس کی شیرینی کیونکر بیاں ہو

ہونٹ لیتے ہیں آپس میں بوسے اس قدر نام میں چاشنی ہے

تھا زمانے میں ظلمت کا ڈیرا ‘ آپ آئے تو پھوٹا سویرا

چہرۂ دلربا کے تصدّق سارے عالم میں یہ روشنی ہے

لب پہ نغمے ہوں نعتِ نبی کے ‘ ہاتھ میں دامنِ مصطفٰے ہو

کوئی پوچھے کوئی اور خواہش میں کہوں بس یہی آخری ہے

میرے سرکار قدرت نے تجھ کو ہے سراجاً مُّنیرا بنایا

نور ہی نور ہے اُس فضا میں جس جگہ تیری جلوہ گری ہے

اب تو مجھ کو مدینے بلا لو ‘ اپنے پیاسے کو جلوہ دکھا دو

تیرے درشن سے ہی بجھ سکے گی میری آنکھوں میں جو تشنگی ہے

یہ جلیل آ کے در پر کھڑا ہے اور ہونٹوں پہ یہ التجا ہے

آپ اپنی غلامی میں لے لیں ‘ بس یہی حاصلِ زندگی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]