رات کٹتی ہے مگر تارِ تنفس ہو کر

اور تو خوابِ سحر ہے سو تجھے کیا دیکھیں

ایک اک کر کے سبھی خواب بکھرتے جائیں

اور ہم دور کھڑے ہو کے تماشہ دیکھیں

تیرے حصے میں خیانت نہیں کرنی آئی

ہم اگر خواب بھی دیکھیں تو وہ آدھا دیکھیں

کانچ ٹھہرے تو ترا عکس ہی صیقل کر لیں

آئینہ ہو کے تجھے خود میں سنورتا دیکھیں

دور ہوتا چلا جاتا ہے سفینہ اور ہم

ٹکٹکی باندھ کے ساحل کو سمٹتا دیکھیں

رقص جاری ہے مگر خوف بھی لاحق ہے کہ کب

دل کے مجذوب کو تھک ہار کے گرتا دیکھیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]