رساؔ کو دل میں رکھتے ہیں رساؔ کے جاننے والے

وفا کی قدر کرتے ہیں وفا کے جاننے والے

تری تیغ ادا کھنچتے ہی اپنی جان جاتی ہے

قضا سے پہلے مرتے ہیں قضا کے جاننے والے

بھری ہیں شوخیاں لاکھوں تری نیچی نگاہوں میں

ہمیں ہیں کچھ تری شرم و حیا کے جاننے والے

مری فریاد سن کر کچھ انہیں پروا نہیں ہوتی

نڈر بیٹھے ہیں آہ نارسا کے جاننے والے

یہ وہ کافر ہیں بت ایمان ان پر لے ہی آتے ہیں

خدا کے ماننے والے خدا کے جاننے والے

وفا کی آزمائش کا طریقہ تو ذرا سیکھو

بنو تو آشنا نا آشنا کے جاننے والے

ترا کوچہ ہے ظالم اور مریضانِ محبت ہیں

کہاں جاتے ہیں اس دارالشفا کے جاننے والے

کیا ذکرِ وفا میں نے تو یوں منہ پھیر کر بولے

زمانے سے مٹے رسمِ وفا کے جاننے والے

بتوں کو جاننے والے خدا کو جان جاتے ہیں

بتوں کو جانتے ہیں کیا خدا کو جاننے والے

خدا کا جاننا بس تھا تو کیوں دنیا میں آئے تھے

خدا کے پاس ہی رہتے خدا کو جاننے والے

رساؔ کو سب نے سمجھایا مگر سمجھا نہ کچھ ظالم

ہوئے مجبور اس مرد خدا کے جاننے والے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]