رموزِ عشق مل جائیں ، کوئی حرفِ دعا آئے

ترے بچھڑے ہوؤں کو ہجر میں جینا ذرا آئے

تھمے گردش ہی پاؤں کی اگر منزل نہیں ملتی

نہ رکنے کا سبب نکلے نہ کوئی راستہ آئے

وگرنہ حبس کی شدت سے دھڑکن بند ہوجاتی

یہ روزن دل میں رکھا ہے کہ کچھ تازہ ہوا آئے

مجھے روٹھے ہوئے کی خیریت معلوم کرنی ہے

جو شہرِ یار کو جائے اسے بھی دیکھتا آئے

رخِ زرداب پہ اب کیا شفق کا پھوٹنا صاحب

بھلے بیلیں نکھر آئیں ، بھلے موسم ہرا آئے

اجڑ جاتی ہیں ایسے بستیاں دل کی ، محبت میں

کہ جیسے ہنستے بستے شہر میں موذی وبا آئے

مجھے سب لوگ کہتے ہیں پڑھو تم صبر کی آیت

اسے کوئی نہیں کہتا کہ وہ واپس چلا آئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]