رنگ شفق سے لے کر جیسے رُخ پہ مَلی ہے شام

اور نکھرتا جاتا ہے وہ جب سے ڈھلی ہے شام

دھوپ کنارہ زلفوں میں اور چاندنی گالوں پر

ایک افق پر چاند اور سورج! کیسی بھلی ہے شام

پت جھڑ جیسے رنگوں میں ہے جگنو جیسی آنچ

عمر کی جھکتی ٹہنی پر اک کھِلتی کلی ہے شام

رنگ فضا میں بکھرے ہیں اور شہنائی کی گونج

کس آنگن سے ہنستی روتی آج چلی ہے شام

سائے بھی آخر ڈھلتے ڈھلتے چھوڑ گئے ہیں ساتھ

رات سے کیسے اُلجھے آخر، چھاؤں جلی ہے شام

فکرِ جہاں کی بستی میں پُر پیچ سڑک ہےد ن

رات ہے روشن دروازہ اور تیری گلی ہے شام

رات اُترنے والی ہے اب کوئی ٹھکانہ ڈھونڈ

اک دفعہ سر پر آ کر کس کے سر سے ٹلی ہے شام

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]