رواں ہے کاروانِ رنگ و بُو سرکار کے دم سے

دو عالم کی رگوں میں ہے لہو سرکار کے دم سے

من و تو کی ہے گنجائش کہاں، سب کچھ اُنھی سے ہے

کہ میں سرکار کے دم سے ہوں، تو سرکار کے دم سے

مرے آئینہِ دل میں ہے عکسِ ذات ضو افگن

میں ہوں ہر دم خدا کے رُوبرُو سرکار کے دم سے

نہیں تھے وہ تو رب کو ماننے والا نہ تھا کوئی

معانی آشنا ہے لفظِ ھُوْ سرکار کے دم سے

کریں ہم کیوں نہ اپنی آبرو سرکار پر قرباں

کہ ہے قائم ہماری آبرو سرکار کے دم سے

وہ محبوبِ خدا ہیں، وجہ تخلیقِ دو عَالم ہیں

ہوئے آباد سارے کاخ و کُو سرکار کے دم سے

اُنھی کے نور سے یہ محفلِ ہستی ہوئی روشن

چراغاں ہے جہاں میں چار سُو سرکار کے دم سے

لگن بخشی ہمیں سرکار نے اِبطالِ باطل کی

شعار اپنا ہے حق کی جستجو سرکار کے دم سے

رسُولِ پاک کی نعتیں نہ کیوں محمودؔ گائیں ہم

ملا ہے ہم کو ذوقِ گفتگو سرکار کے دم سے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]