رہی دیں سے دل کو نہ اب استواری

ہمیں شرمساری سی ہے شرمساری

مودّت، محبت، مروت سے عاری

نگاہوں سے اترا اب انساں ہماری

وفاداریاں اور دنیائے دوں سے

یہ کس کی ہوئی ہے جو ہو گی تمہاری

سمیٹا ہے دنیا کا سرمایۂ غم

عجب ہے غریبوں کی سرمایہ داری

وہی شدتِ غم، وہی بے بسی ہے

وہی نالۂ دل، وہی آہ و زاری

محبت جگہ کرتی ہے خود ہی دل میں

محبت نہیں شے ہے خود اختیاری

تعجب ہے دل کو، نظرؔ محو ِ حیرت

ہیں بندے خدا کے، صنم کے پجاری

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]