زندہ ہزاروں لوگ جہاں مر کے ہو گئے

ہم بھی خدا کا شکر اُسی در کے ہو گئے

جو راس تھا ہمیں وہی قسمت نے لکھ دیا

ہم جور آشنا تھے ستم گر کے ہو گئے

نکلے تھے ہم جزیرۂ زر کی تلاش میں

ساحل کی ریت چھوڑ کے ساگر کے ہو گئے

کچھ ایسا رائگانیِ دستک کا خوف تھا

پہلا جو در کھلا ہم اُسی در کے ہو گئے

میرے ستم گروں کا بھی معیار بڑھ گیا

پتھر جو مجھ پر آتے تھے مرمر کے ہو گئے

بالیدگی ہوائے سیاست کی دیکھنا

بالشتیئے اک آن میں گز بھر کے ہو گئے

کرنے لگے ہیں وہ بھی لو بچپن کو اپنے یاد

بچّے ظہیرؔ میرے برابر کے ہو گئے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]