ساقی کا اگر مجھ پر فیضانِ نظر ہوتا

بادہ بھی دگر ہوتا، نشّہ بھی دگر ہوتا

منزل سے بھٹکنے کا تجھ کو نہ خطر ہوتا

نقشِ کفِ پا ان کا گر پیشِ نظر ہوتا

اس عالمِ گزراں کا عالم ہی دگر ہوتا

کہتے ہیں بشر جس کو، اے کاش بشر ہوتا

تو اپنے گناہوں پر نادم ہی نہیں ورنہ

یا دیدۂ تر ہوتا، یا دامنِ تر ہوتا

دم گھٹنے لگا میرا، اے میرے خدا اب تو

یہ تیرہ شبی جاتی، ہنگامِ سحر ہوتا

غم کی زدِ پیہم سے بچتا میں نظرؔ کیسے

دل یہ نہ مرا بڑھ کر گر سینہ سپر ہوتا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]