سب توڑ دیں حدود ، مرا دل نہیں لگا

زندان تھا وجود ، مرا دل نہیں لگا

من میں منافقت لئے پڑھتی رہی نماز

تھے نام کے سجود ، مرا دل نہیں لگا

اے رب دو جہان ترے اس جہان میں

کوشش کے باوجود ، مرا دل نہیں لگا

اس بار شوقِ وصل کی لذت بھی کھو گئی

طاری رہا جمود ، مرا دل نہیں لگا

دنیائے رنگ و رس سے بھی اکتا گئی ہوں میں

کیا رقص کیا سرود ، مرا دل نہیں لگا

میں جارہی ہوں چھوڑ کے اے ساکنان ِ شہر

یہ قریہ ء نمود ، مرا دل نہیں لگا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]