سرِ نظارت رخِ مدینہ کہاں سے لاؤں

عجم کی مٹی ہوں طورِ سینا کہاں سے لاؤں

حضورِ اکرم سُنیں تو ہولے سے مسکرا دیں

میں نعت کہنے کا وہ قرینہ کہاں سے لاؤں

مہک تو سکتے ہیں اب بھی دونوں جہان لیکن

میں شاہِ ابرار کا پسینہ کہاں سے لاؤں

میں دیکھ پاؤُں شہِ مکرم کے نرم تلوے

میں وہ مقدر وہ چشمِ بینا کہاں سے لاؤں

جسے مدینے کے کنکروں کی مثال سمجھوں

وہ لعلِ نایاب وہ نگینہ کہاں سے لاؤں

ربیعِ اول مسرتیں بانٹتا ہے ہر سو

میں ہر مہینے وہی مہینہ کہاں سے لاؤں

جو نعلِ پائے رسول تک دے رسائی مجھ کو

میں بے ہنر وہ رفیع زینہ کہاں سے لاؤں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]