سر بسر آہ و فغاں گریہ و نالہ دل کا

اب کے جاتا ہی نہیں درد یہ پالا دل کا

آرزو ہائے صنم شکوہِ صد رنج و الم

دیکھ حیران ہوں یہ طور نرالا دل کا

دیکھ کر بزمِ رقیباں میں انہیں جاگ اٹھا

ایک مدت سے تھا جو درد سنبھالا دل کا

ان کی ہر ایک جفا میں نے سرِ بزم کہی

خوب میں نے بھی یوں ارمان نکالا دل کا

چشمِ نم دیدہ تڑپ کر یہ خِرد سے بولی

جھوٹ تھا! جھوٹ تھا! ہر ایک حوالہ دل کا

کس قدر کفر پہ مائل تھی طبیعت اس کی

طالبِ وصل نہ تھا چاہنے والا دل کا

گم ہے اب تک وہ کہیں نفرتوں کی گھاٹی میں

جو کبھی نکلا تھا سر کرنے ہمالہ دل کا

لوگ کہتے ہیں کہ عاطف بھی تھا اک سودائی

ڈھونڈتا پھرتا تھا دنیا میں اجالا دل کا

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]