سوچا ہے یہ ہم نے تمہیں سوچا نہ کریں گے

ہم تم کو تصور میں بھی رُسوا نہ کریں گے

گر تم کو بچھڑنے پہ نہیں کوئی ندامت

مل جاؤ تو ہم بھی کوئی شکوہ نہ کریں گے

رستے میں اگرچہ ہیں ہواؤں کے نشیمن

ہم مشعلِ خود داری کو نیچا نہ کریں گے

ہاں ذوقِ سفر بڑھ کے ہے منزل کی ہوس سے

ہم کھو بھی گئے تو کوئی شکوہ نہ کریں گے

وہ حرفِ سخن جو تری نسبت سے ملا ہے

اس حرف کو بازار میں رسوا نہ کریں گے

اپنی ہی بغاوت سے نبٹنا نہیں ممکن

یہ دل نہیں چاہے گا تو وعدہ نہ کریں گے

تڑپیں گے نہ بیکار کسی فکرِ عبث میں

احساس کی دولت کو یوں ضایع نہ کریں گے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]