سوچتے سوچتے جب سوچ اُدھر جاتی ہے

روشنی روشنی ہر سمت بکھر جاتی ہے

دھیان سے جاتا ہے غم بے سروسامانی کا

جب مدینے کی طرف میری نظر جاتی ہے

اُڑتے اُڑتے ہی کبوتر کی طرح آخرِکار

سبز گنبد پہ مری آنکھ ٹھہر جاتی ہے

میں گذرتا ، تو وہاں جاں سے گذرتا چُپ چاپ

یہ ہَوَا کیسے مدینے سے گذر جاتی ہے

بخت میں مجھ سے تو اچھّی ہے رسائی اس کی

جو مدینے کو ترے، راہگذر جاتی ہے

رات جب الٹے قدم آتی ہے دِیدار کے بعد

چُومنے آپ کے قدموں کو سحر جاتی ہے

چاہے یہ ڈور سی اُلجھی رہے دُنیا میں شمار

زندگی جا کر مدینے میں سنور جاتی ہے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]