سکوتِ شام میں گونجی صدا اُداسی کی

کہ ھے مزید اُداسی دوا اُداسی کی

بہت شریر تھا مَیں اور ھنستا پھرتا تھا

پھر اِک فقیر نے دے دی دُعا اُداسی کی

چراغِ دل کو ذرا احتیاط سے رکھنا

کہ آج رات چلے گی ھوا اُداسی کی

امورِ دل میں کسی تیسرے کا دخل نہیں

یہاں فقط تری چلتی ھے یا اُداسی کی

چراغ ِ دل کو ذرا احتیاط سے رکھنا

کہ آج شام چلے گی ہوا اداسی کی

وہ امتزاج تھا ایسا کہ دنگ تھی ہر آنکھ

جمال ِ یار نے پہنی قبا اُداسی کی

اِسی اُمید پہ آنکھیں برستی رھتی ھیں

کہ ایک دِن تو سُنے گا خُدا اُداسی کی

شجر نے پُوچھا کہ تُجھ میں یہ کس کی خوشبُوھے؟

"​ھوائے دشتِ جنوں نے کہا "​ اُداسی کی

بہت دِنوں سے میں اُس سے نہیں ملا فارس

کہیں سے خیر خبر لے کے آ اُداسی کی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]