نظر میں جلووں کی جھلملاہٹ پکارتی ہے
کہ یادِ طیبہ نصیب میرا سنوارتی ہے
سب انبیا کا جواب سن کر، پئے شفاعت
شفیعِ محشر کو نسلِ آدمؑ پکارتی ہے
ہوائے طیبہ کی چارہ سازی ہر اک بھنور میں
مرے سفینوں کو ساحلوں پر اتارتی ہے
شبیہِ گنبد کو دیکھ کر آنکھ نم ہوئی ہے
یہی نمی تو ہر ایک منظر نکھارتی ہے
وہ چشمِ مشکل کشا مری آخری تمنا
جو حشر میں امتی کو پُل سے گزارتی ہے