شاہانِ جہاں کس لئے شرمائے ہوئے ہیں

کیا بزم میں طیبہ کے گدا آئے ہوئے ہیں؟

ہنگامۂ محشر میں کہاں حَبس کا خدشہ

گیسو شہِ کونین کے لہرائے ہوئے ہیں

حاجت نہیں جُنبِش کی یہاں اے لبِ سائل

وہ یُوں بھی کرم حال پہ فرمائے ہوئے ہیں

یہ شہرِ مدینہ ہے کہ ہے اک کشش آباد

محسوس یہ ہوتا ہے کہ گھرآئے ہوئے ہیں

ایثار و مساوات و مُؤاخات و تواضع

یہ پُھول سبھی آپ کے مہکائے ہوئے ہیں

کَل اپنی عنایت سے نہ رکھیں ہمیں محروم

کچھ بھی ہیں٬مگر آپ کے کہلائے ہوئے ہیں

یا شاہِ اُمم! ایک نظر اُن کی طرف بھی

دامانِ تمنا کو جو پھیلائے ہوئے ہیں

خورشیدِ جہانتاب ہو،یا ماہِ شب افروز

دونوں ترے چہرے سے ضیا پائے ہوئے ہیں

ملتی نہیں دل کو کسی پہلو بھی تسلی

لمحات حضوری ہیں کہ تڑپائے ہوئے ہیں

اِس وقت نہ چھیٹر اے کششِ لذتِ دنیا

اِس وقت مِرے دل کو وہ یاد آئے ہوئے ہیں

سُلطانِ دوعالَم کی عطا اور یہ عاصی

کچھ لوگ تواِس بات پہ چکرائے ہوئے ہیں

حاوی ہے فلک کُلّیتًا جیسے زمیں پر

اِس طرح مِرے ذہن پہ وہ چھائے ہوئے ہیں

جنت کی فضائیں اُنہیں بہلا نہ سکیں گی

جو آپ کی گلیوں کی ہَوا کھائے ہوئے ہیں

بن جائے گی محشر میں نصؔیر اب تِری بگڑی

سرکار، شفاعت کے لئے آئے ہوئے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]