شکر خالق کس طرح سے ہو اَدا

اک زباں اور نعمتیں بے اِنتہا

پھر زباں بھی کس کی مجھ ناچیز کی

وہ بھی کیسی جس کو عصیاں کا مزا

اے خدا کیوں کر لکھوں تیری صفت

اے خدا کیوں کر کہوں تیری ثنا

گننے والے گنتیاں محدود ہیں

تیرے اَلطاف و کرم بے انتہا

سب سے بڑھ کر فضل تیرا اے کریم

ہے وجودِ اقدسِ خیر الوریٰ

ہر کرم کی وجہ یہ فضل عظیم

صدقہ ہیں سب نعمتیں اس فضل کا

فضل اور پھر وہ بھی ایسا شاندار

جس پہ سب افضال کا ہے خاتمہ

اولیا اس کے کرم سے خاص حق

انبیا اس کی عطا سے انبیا

خود کرم بھی خود کرم کی وجہ بھی

خود عطا خود باعثِ جود و عطا

اس کرم پر اس عطا و جود پر

ایک میری جان کیا عالم فدا

کر دے اک نم سے جہاں سیراب فیض

جوش زن چشمہ کرم کے میم کا

جان کہنا مبتذل تشبیہ ہے

اللہ اللہ اُس کے دامن کی ہوا

جان دی مردوں کو عیسیٰ نے اگر

اُس نے خود عیسیٰ کو زندہ کر دیا

بے سبب اُس کی عطائیں بے شمار

بے غرض اُس کے کرم بے اِنتہا

بادشا ہو ، یا گدا ہو ، کوئی ہو

سب کو اُس سرکار سے صدقہ ملا

سب نے اس در سے مرادیں پائی ہیں

اور اسی در سے ملیں گی دائما

جودِ دریا دل کے صدقہ سے بڑھے

بڑھتے بادل کو گھٹا کہنا خطا

مَنْ رّاٰنِیْ والے رُخ نے بھیک دی

کیوں نہ گلشن کی صفت ہو دل کشا

جلوۂ پائے منور کے نثار

مہر و مہ کو کتنا اُونچا کر دیا

اپنے بندوں کو خدائے پاک نے

اس کے صدقہ میں دیا جو کچھ دیا

مصطفی کا فضل ہے مسرور ہیں

نعمت تازہ سے عبد المصطفیٰ

عالم دیں مقتدائے اہلِ حق

سُنیّوں کے پیشوا احمد رضا

فضلِ حق سے ہیں فقیرِ قادری

اِس فقیری نے اُنھیں سب کچھ دیا

لختِ دل حامد میاں کو شکر ہے

حق نے بیٹا بخشا جیتا جاگتا

میں دعا کرتا ہوں اب اللہ سے

اور دعا بھی وہ جو ہے دل کی دعا

واسطہ دیتا ہوں میں تیرا تجھے

اے خدا از فضلِ تو حاجت روا

عافیت سے قبلہ و کعبہ رہیں

ہم غلاموں کے سروں پر دائما

دولت کونین سے ہوں بہرہ ور

اخِّ اعظم – مصطفی – حامد رضا

نعمتِ تازہ کو دے وہ نعمتیں

کیں جو تو نے خاص بندوں کو عطا

دوست ان سب کے رہیں آباد و شاد

دشمنِ بد خواہ غم میں مبتلا

آفریں طبعِ رواں کو اے حسنؔ

قطعہ لکھنا تھا قصیدہ ہو گیا

سن ولادت کے دعائیہ لکھو

’علم و عمر اقبال و طالع دے خدا‘​

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

الاماں قہر ہے اے غوث وہ تیکھا تیرا

مر کے بھی چین سے سوتا نہیں مارا تیرا بادلوں سے کہیں رکتی ہے کڑکتی بجلی ڈھالیں چھنٹ جاتی ہیں اٹھتا ہے تو تیغا تیرا عکس کا دیکھ کے منہ اور بپھر جاتا ہے چار آئینہ کے بل کا نہیں نیزا تیرا کوہ سر مکھ ہو تو اک وار میں دو پر کالے ہاتھ پڑتا […]

بندہ قادر کا بھی، قادر بھی ہے عبد القادر

سرِ باطن بھی ہے ظاہر بھی ہے عبد القادر مفتیِ شرع بھی ہے قاضیِ ملت بھی ہے علمِ اسرار سے ماہر بھی ہے عبد القادر منبع فیض بھی ہے مجمع افضال بھی ہے مہرِ عرفاں کا منور بھی ہے عبد القادر قطب ابدال بھی ہے محور ارشاد بھی ہے مرکزِ دائرہ سرّ بھی ہے عبد […]