شہِ کونین کے عاشق حضوری میں رہے اکثر

نگاہِ یار کے طالب تجلی میں رہے اکثر

تصور محفلِِ نوری اڑا کے لے گئے ذاکر

پرندے بھی قفس سے ایسی دوری میں رہے اکثر

حریمِِ ناز کے جوشہر منڈلاتے ہیں متوالے

وہ شیدا قبل اس سے خوابِ نوری میں رہے اکثر

مسافر گرمیِ خورشید کی شدت سے گھبرائے

مصائب میں انہی کے دل صُبوری میں رہے اکثر​

طلب سے ماوراء ہوتے ہیں طوفِ شمع کے جو گرد

وہ پروانے سدا نوری جلالی میں رہے اکثر

یہ اُنظر نا کے طالب اب کھڑے کب سے مؤدب ہیں

نفوسی ایسے کب سے ناصبوری میں رہے اکثر

​سیہ بدلی میں معجز نور پوشیدہ تھا، طہٰ تو

خشیت مارے گھبرا کر تھے کملی میں رہے اکثر

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

پھراٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب

پھر اٹھا ولولہ یاد مغیلان عرب پھر کھنچا دامن دل سوئے بیابان عرب باغ فردوس کو جاتے ہیں ہزاران عرب ہائے صحرائے عرب ہائے بیابان عرب میٹھی باتیں تری دینِ عجمِ ایمان عرب نمکیں حسن ترا جان عجم شان عرب اب تو ہے گریۂ خوں گوہر دامان عرب جس میں دو لعل تھے زہرا کے […]

بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے

کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے کھبتی ہوئی نظر میں ادا کس سحر کی ہے چبھتی ہوئی جگر میں صدا کس گجر کی ہے ڈالیں ہری ہری ہیں تو بالیں بھری بھری کشتِ اَمل پری ہے یہ بارش کدھر کی ہے ہم جائیں اور قدم سے لپٹ کر حرم کہے سونپا خدا […]