صلیبِ مرگ پہ آؤ بدن اتارتے ہیں

تمام عمر کی لادی تھکن اتارتے ہیں

وہ میری ذات سے یوں منحرف ہوا جیسے

کسی قمیض سے ، ٹوٹے بٹن اتارتے ہیں

غزال شخص ! تم اِتراو ، حق بھی بنتا ہے

تمہاری آنکھ کا صدقہ ہرن اتارتے ہیں

ہر ایک سانس ادھڑتی ہے سود بھرتے ہوئے

یہ قرضِ زندگی سب مرد و زن اتارتے ہیں

عطا ہر ایک پہ ہوتی نہیں کہ مالکِ کُن

چنیدہ لوگوں پہ رزق سخن اتارتے ہیں

جو عشق گھول کے دیتے ہیں میٹھے لہجوں میں

رگوں میں زہر بھی وہ دفعتاً اتارتے ہیں

گلے لگاؤ کہ تھک جانے والے لوگوں کو

دلاسہ دیتے ہیں ، دل کی گھٹن اتارتے ہیں

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

یہ جو مجھ پر نکھار ہے سائیں

آپ ہی کی بہار ہے سائیں آپ چاہیں تو جان بھی لے لیں آپ کو اختیار ہے سائیں تم ملاتے ہو بچھڑے لوگوں کو ایک میرا بھی یار ہے سائیں کسی کھونٹے سے باندھ دیجے اسے دل بڑا بے مہار ہے سائیں عشق میں لغزشوں پہ کیجے معاف سائیں! یہ پہلی بار ہے سائیں کل […]

جس سے رشتہ ہے نہ ناتا میرا

ذات اُس کی ہے اثاثہ میرا تیری زُلفیں ہی مِری شامیں ہیں تیرا چہرا ہے سویرا میرا تُو نیا چاند ، میں ڈھلتا سورج ساتھ نبھنا نہیں تیرا میرا میں ترا قرض چکاؤں کیسے؟ مجھ پہ تو قرض ہے اپنا میرا پیار کی میرے اُسے عادت ہے اُس نے غصّہ نہیں دیکھا میرا وہ تو […]