طلسمِ ہوش ربا کی کی قیود سے نکلے

ترے فقیر بدن کی حدود سے نکلے

سلام وحشتِ کامل، کہ تیرے دست نگر

تری تلاش میں اپنے وجود سے نکلے

کوئی کمال ، کوئی موڑ، حادثہ کوئی

کسی بھی طور کہانی جمود سے نکلے

گنوا کے دیکھ لیا ، اور پا کے دیکھ لیا

حساب ہائے زیاں اور سود سے نکلے

ترے طفیل ملیں کج کلاہیاں ایسی

خیالِ نام و نشان و نمود سے نکلے

قضآ کی ایک ہی گردش کی مار تھے صاحب

جو رقص تیز ہوا، ہست و بود سے نکلے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]