طلسم خانۂ امریکہ

اَبر و گُل و سِتارہ و مہتاب ساتھ تھے

نکلا مَیں گھر سے تو مرے احباب ساتھ تھے

رختِ سفر میں کچھ تو اُداسی تھی، کچھ گُلاب

یعنی تُمہاری یاد کے اسباب ساتھ تھے

صَوت و صدا کے دیس میں تنہا نہیں تھا مَیں

چنگ و رُباب و نغمہ و مِضراب ساتھ تھے

ھر پل تھیں دائیں بائیں دل آویز خُوشبوئیں

ھر مرحلے پہ کچھ گُلِ کمیاب ساتھ تھے

شہرِ طلسم و کُوچۂ رنگ و نوا میں ھم

کُھل کر جِیے مگر ادب آداب ساتھ تھے

وحشت بھی ھم رُکاب تھی، نشّہ بھی ھم قدم

یعنی غزالِ دشت و مئے ناب ساتھ تھے

خاکی بدن پہ کوئی بھی احساں نہیں لیا

حالانکہ لاکھ ریشم و کمخواب ساتھ تھے

روئے کسی کے دھیان میں تو روئے ٹُوٹ کر

نکلے جب اشک تو کئی سیلاب ساتھ تھے

جب یاد کو پُکارا، پُکارا بصد ادب

جب جب لیا وہ نام، سب القاب ساتھ تھے

لوحِ جنُوں پہ زیر و زبر ھوگئے مگر

لکّھا جو لفظِ عشق تو اعراب ساتھ تھے

ھوتی ھے واپسی کے سفر میں یہ ٹُوٹ پُھوٹ

کچھ خواب پیچھے رہ گئے، کچھ خواب ساتھ تھے

فارس جی ! عجز چھوڑا نہیں شُہرتوں میں بھی

اب بھی وُھی ھیں ساتھ جو احباب ساتھ تھے

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

ادھ کھلی گرہ

میں اساطیر کا کردار نہ ہی کوئی خدا میں فقط خاک کے پیکر کے سوا کچھ نہ سہی میری تاویل ، مرے شعر، حکایات مری ایک بے مایہ تصور کے سوا کچھ نہ سہی میری پروازِ تخیل بھی فقط جھوٹ سہی میرا افلاکِ تصور بھی قفس ہو شاید میرا ہر حرفِ وفا محض اداکاری ہے […]

بے دلی

وضاحتوں کی ضرورت نہیں رہی ہے کہ اب بطورِ خاص وضاحت سے ہم کو نفرت ہے جو دستیاب ہے بس اب وہی حقیقت ہے جو ممکنات میں ہے وہ کہیں نہیں گویا برائے خواب بچی ہے تو دست برداری فنونِ عشق پہ حاوی فنا کی فنکاری محبتوں کے تماشے بہت ہوئے اب تک دلِ تباہ […]