طوفان میں جزیرہ ملا ہے، زمیں ملی

پانی کی قید سے تو رہائی نہیں ملی

ابر رواں کے پیچھے چلے آئے ہم کہاں

بارش ہوئی تو مٹی کی خوشبو نہیں ملی

دوزخ سمجھ کے چھوڑی جو تپتی ہوئی زمین

چھالے پڑے تو پاؤں کو ٹھنڈک وہیں ملی

جھوٹی انا کا تخت، زر مصلحت کا تاج

جب کھو دیئے تو دولتِ صدق و یقیں ملی

تھکتی نہیں ہے سجدۂ فرعون وقت سے

موسیٰ کے حامیوں کو یہ کیسی جبیں ملی

پردیس آ کے مر گئی دریا دلی ظہیرؔ

پانی کہیں کا تھا جسے مٹی کہیں ملی

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Releated

جو کچھ بساطِ دستِ جنوں میں تھا ، کر چکے

سو بار جی چکے ہیں تو سو بار مر چکے واجب نہیں رہی کوئی تعظیم اب تمہیں ہم مسندِ خدائے سخن سے اتر چکے تم کو فنا نہیں ہے اساطیر کی طرح ہم لوگ سرگزشت رہے تھے گزر چکے یوں بھی ہوا کے ساتھ اڑے جا رہے تھے پر اک ظاہری اڑان بچی تھی سو […]

اپنے تصورات کا مارا ہوا یہ دل

لوٹا ہے کارزار سے ہارا ہوا یہ دل صد شکر کہ جنون میں کھوٹا نہیں پڑا لاکھوں کسوٹیوں سے گزارا ہوا یہ دل آخر خرد کی بھیڑ میں روندا ہوا ملا اک مسندِ جنوں سے اتارا ہوا یہ دل تم دوپہر کی دھوپ میں کیا دیکھتے اسے افلاک نیم شب کا ستارا ہوا یہ دل […]